اسلام کے مخلص محافظ
Manage episode 402804738 series 3253429
28 رجب 1342 ہجری بمطابق 3مارچ 1924 عیسوی کو خلافت کے خاتمے کے بعد سے مسلمان مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مظالم سے دوچار ہیں۔ یہ حکمران اسلام کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اور انسانوں کے بنائے قوانین کے مطابق حکمرانی کرتے ہیں، جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ " اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں "(المائدہ 5:45)۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی قائم کرکے ان حکمرانوں کے ظلم کا خاتمہ کریں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ "اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اُسے اِس سے نہ روکیں تو جلد ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں سزا دے گا"(ترمذی)۔
یقیناً مسلم دنیا میں موجود بااثر لوگ اور اہلِ قوت اس ظلم کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج بھی یہی صورتحال ہے اور رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہی صورتحال تھی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پر مکہ کے بااثر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دعا کی، اور فرمایا، اللهم أعز الإسلام بأحب الرجلين إليك: بعمر بن الخطاب أو بأبي جهل بن هشام "اے اللہ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام میں سے جسے آپ زیادہ پسند کرتے ہیں ،کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرمائیے"۔ تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح عمرؓ اور حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حمزہؓ اور عمرؓ نے دار الارقم سے صحابہؓ کی قیادت کرتے ہوئے ایک ریلی نکالی اور مسلمان گروہ کی موجودگی کا مضبوط عوامی مظاہرہ کیا۔ اسی طرح ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب معزز انصارؓ نے نُصرۃ (مدد) دی تو پھر ظلم کا خاتمہ ہوا اور مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست قائم ہوئی۔
آج بااثر اور اہلِ قوت افراد جوموجودہ نظام سے برا ہ راست فوائد اٹھارہے ہیں ،اُس تبدیلی کو لانے میں بھی اہم ترین کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس تبدیلی کا بہت شدت سے انتظار کیا جارہا ہے ۔ آج کے جابر حکمران بااثر لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کے لیے انہیں امت کے خزانے دینے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جابر حکمران ظلم اور ناانصافی کے خلاف ان بااثر لوگوں کو بولنے سے روکنے کے لیے دھمکیوں کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ لیکن آخرت کے خزانے ان لوگوں کے منتظر ہیں جو اپنےامتیازی رتبے کوجابروں کی جانب سے رشوت کی پیشکش اور دھمکیوں کے باوجود سچ کی سربلندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بااثر اور اہل قوت افراد کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کو سمجھیں ، چاہے وہ جج ہوں یا صحافی، صنعتکارہوں یا علماء یا پھرافواج کے افسران ۔
بااثر اور اہل قوت افراد کو مظلوم امتِ مسلمہ کو ظلم اور مشکلات سے نکالنے والا بننا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو آخرت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا حق دار ثابت کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ پوری استقامت سے جابروں کی رشوتوں کو مسترد کردیں۔ انہیں اللہ کی رضا کی خاطر دھمکیوں اور نقصان کا سامنا کرنا ہو گا۔ اور انہیں اس بات کی تیاری کرنی ہو گی کہ روزِ آخرت انہیں جابروں کے ساتھ نہ اٹھایا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ " اوروہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمیں رستے سے گمراہ کردیا "(الاحزاب 33:67)۔
123 episoade